تفسير ابن كثير



سورۃ الشعراء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ[153] مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ[154] قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ[155] وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ[156] فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ[157] فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ[158] وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ[159]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] انھوں نے کہا توُ تو انھی لوگوں سے ہے جن پر زبردست جادو کیا گیا ہے۔ [153] تو نہیں ہے مگر ہمارے جیسا ایک آدمی، پس کوئی نشانی لے آ، اگر تو سچوں سے ہے۔ [154] اس نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، اس کے لیے پانی پینے کی ایک باری ہے اور تمھارے لیے ایک مقرر دن کی باری ہے۔ [155] اور اسے کسی برائی سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک بڑے دن کا عذاب پکڑلے گا۔ [156] تو انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، پھر پشیمان ہوگئے۔ [157] تو انھیں عذاب نے پکڑ لیا۔ بے شک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے اوران کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ [158] اور بلاشبہ تیرا رب، یقینا وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔ [159]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وه بولے کہ بس تو ان میں سے ہے جن پر جادو کردیا گیا ہے [153] تو تو ہم جیسا ہی انسان ہے۔ اگر تو سچوں سے ہے تو کوئی معجزه لے آ [154] آپ نے فرمایا یہ ہے اونٹنی، پانی پینے کی ایک باری اس کی اور ایک مقرره دن کی باری پانی پینے کی تمہاری [155] (خبردار!) اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تمہاری گرفت کر لے گا [156] پھر بھی انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ ڈالیں، بس وه پشیمان ہوگئے [157] اور عذاب نے انہیں آ دبوچا۔ بیشک اس میں عبرت ہے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے [158] اور بیشک آپ کا رب بڑا زبردست اور مہربان ہے [159]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] وہ کہنے لگے کہ تم تو جادو زدہ ہو [153] تم اور کچھ نہیں ہماری طرح آدمی ہو۔ اگر سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو [154] صالح نے کہا (دیکھو) یہ اونٹنی ہے (ایک دن) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین روز تمہاری باری [155] اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا (نہیں تو) تم کو سخت عذاب آ پکڑے گا [156] تو انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر نادم ہوئے [157] سو ان کو عذاب نے آن پکڑا۔ بےشک اس میں نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے [158] اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے [159]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 153، 154، 155، 156، 157، 158، 159،

نبی کا اپنے آپ سے تقابل ٭٭

ثمودیوں نے اپنے نبی کو جواب دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے گو ایک معنی یہ بھی کئے گئے کہ تو مخلوق میں سے ہے اور اس کی دلیل میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن ظاہر معنی پہلے ہی ہیں۔

اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ تو تو ہم جیسا ایک انسان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم میں سے تو کسی پر وحی نہ آئے اور تجھ پر آ جائے کچھ نہیں یہ صرف بناوٹ ہے ایک خود ساختہ ڈرامہ ہے محض جھوٹ اور صاف طوفان ہے اچھا ہم کہتے ہیں اگر تو واقعی سچا نبی ہے تو کوئی معجزہ دکھا اس وقت ان کے چھوٹے بڑے سب جمع تھے اور یک زبان ہو کر سب نے معجزہ طلب کیا تھا۔
6287

آپ علیہ السلام نے پوچھا تم کیا معجزہ دیکھانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ سامنے جو پتھر کی بڑی ساری چٹان ہے یہ ہمارے دیکھتے ہوئے پھٹے اور اس میں سے ایک گابھن اونٹنی اس اس رنگ کی اور ایسی ایسی نکلے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر میں رب سے دعا کروں اور وہ یہی معجزہ میرے ہاتھوں تمہیں دکھا دے پھر تو تمہیں میری نبوت کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہو گا؟ سب نے پختہ وعدہ کیا قول قرار کیا کہ ہم سب ایمان لائیں گے اور آپ کی نبوت مان لیں گے۔ آپ علیہ السلام بہت جلد یہ معجزہ دکھائیں۔

آپ علیہ السلام نے اسی وقت نماز شروع کر دی پھر اللہ عزوجل سے دعا کی اسی وقت وہ پتھر پھٹا اور اسی طرح کی ایک اونٹنی ان کے دیکھتے ہوئے اس میں سے نکلی۔ کچھ لوگ تو حسب اقرار مومن ہو گئے لیکن اکثر لوگ پھر بھی کافر کے کافر رہے۔

آپ علیہ السلام نے کہا سنو ایک دن یہ پانی پئے گی اور ایک دن پانی کی باری تمہاری مقرر رہے گی۔ اب تم میں سے کوئی اسے برائی نہ پہنچائے ورنہ بدترین عذاب تم پر اتر پڑے گا۔‏‏‏‏ ایک عرصے تک تو وہ رکے رہے۔ اونٹنی ان میں رہی چارہ چگتی اور اپنی باری والے دن پانی پیتی۔ اس دن یہ لوگ اس کے دودھ سے سیر ہو جاتے۔

لیکن ایک مدت کے بعد ان کی بدبختی نے انہیں آ گھیرا۔ ان میں سے ایک ملعون نے اونٹنی کے مار ڈالنے کا ارادہ کیا اور کل اہل شہر اس کے موافق ہو گئے چنانچہ اس کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا۔ جس کے نتیجے میں انہیں سخت ندامت اور پیشمانی اٹھانی پڑی اللہ کے عذاب نے انہیں اچانک آ دبوچا۔ ان کی زمین ہلا دی گئیں اور ایک چیخ سے سب کے سب ہلاک کر دئیے گئے۔ دل اڑ گئے کلیجے پاش پاش ہو گئے اور وہم گمان بھی جس چیز کا نہ تھا وہ آن پڑا۔ اور تا آخر سب غارت ہو گئے اور دنیا جہاں کے لیے یہ خوفناک واقعہ عبرت افزا ہو گیا۔ اتنی بڑی نشانی اپنی آنکھوں دیکھ کر بھی ان میں سے اکثر لوگوں کو ایمان لانا نصیب نہ ہوا اسمیں کچھ شک نہیں کہ اللہ غالب ہے اور رحیم بھی ہے۔
6288



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.